مقبوضہ یروشلم کے بارے میں اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا سے ہٹ کر اسرائیلی خوشنودی کے لیے موقف اختیار کرنے پر آسٹریلیا کو عرب ممالک کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں موجود عرب و فلسطینی وفد کے سربراہ عزت عبدالہادی نے آسٹریلیا کے متعلقہ حکام کو خبردار کر دیا ہے۔
وفد کے سربراہ عزت عبدالہادی نے کہا ''اسرائیل کے عرب علاقوں اور فلسطین پر قبضے کی تسلیم شدہ حقیقت سے انکھیں چرانے کی آسٹریلیا کی نئی پالیسی کسی بھی طرح دنیا کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی ہے۔ ''
واضح رہے آسٹریلیا نے اسی ہفتے اپنی پہلے سے موجود پالیسی میں تبدیلی کرتے ہو ئے اعلان کیا ہے کہ وہ یروشلم کے ساتھ مقبوضہ کا لفظ نہیں لکھے گا۔ اس تبدیلی اور اسرائیل کے لیے نرمی کی وجہ آسٹریلیا کی طرف سے یہ بتائی گئی ہے کہ اس طرح کی اصطلاحات کے استعمال سے امن عمل کو نقصان ہو سکتا ہے۔
اسرائیل نے آسٹریلیا کے اس نئی منطق پر مبنی موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اس پر قائم رہنے کے لیے کہا ہے، جبکہ فلسطین اور عرب دنیا میں اس پر بطور خاص سخت ردعمل سامنے
آیا ہے۔
آسٹریلیا کے اس اعلان کے ساتھ ہی ایک اعلی سطح کا وفد عرب دنیا سے آسٹریلیا پہنچا ہے اس میں عرب ملکوں کے علاوہ دیگر ممالک کے نمائندے بھی موجود ہیں تاکہ آسٹریلیا کو اس غیر مناسب موقف سے رجوع کرنے کے لیے کہہ سکیں۔
وفد میں انڈونیشیا، مصر اور سعودی عرب کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ وفد کے ارکان نے آسٹریلیا کے دفتر خارجہ کے حکام کو اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے۔
اس سے پہلے اردن اور فلسطینی کی حکومتیں آسٹریلین سفیروں کو طلب کر کے نئی پالیسی پر احتجاج بھی کر چکی ہیں۔
آسٹریلیا میں موجود فلسطینی نمائندے نے عبدالہادی نے کہا'' اگر آسٹریلیا نے اپنے نئے موقف پر اصرار کیا تو اس کے خلاف اقتصدی پالیسیاں بروئےکار آ سکتی ہیں۔ ''
عبدالہادی نے کہا ''یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ جس کے آسٹریلوی حکومت کے لیے مضمرات منفی ہوں گے۔ ''
خیال رہے آسٹریلیا سالانہ بنیادوں پر مشرق وسطی کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت کرتا ہے۔ اس تجارت میں قطر کے لیے گندم اور گوشت کی فراہمی، اردن کے لیے زندہ بھیڑوں اور دنبوں کی فراہمی آسٹریلیا کے لیے بطور خاص منافع بخش کاروبار ہیں۔